دسمبر 1957 میں قائد اعظم کی تصویر والا 100 روپے کا نوٹ جاری کیا گیا تو مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا احتشام الحق تھانوی ، میاں طفیل محمد اور کئی دوسرے علمأ اور مذہبی رہنماؤں نےنوٹ پر تصویر کو سراسر غیر اسلامی قرار دیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد یہ معاملہ اسی طرح ٹھنڈا پڑ گیا جس طرح گھڑی، لاؤڈ سپیکر ، فوٹو وغیرہ آہستہ آہستہ جائز ہوگئے ہیں۔ بعد میں تو سِکوں پر بھی تصویریں آگئیں۔
وہ علمأ جو تصویر کھنچواتے ہی نہیں تھے،آج ان کی جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈروں اور ان کے جلسے جلوسوں اور ریلیوں کی تصویریں چھپوانے کیلئے اخبار والوں کے سر پر سوار ہوجاتے ہیں ۔
اب تو حج اور عمرے پر سیلفیاں بھی لازمی ہوگئی ہیں.
جولائی 2011ء میں پاکستان کے مرکزی بینک نے ملک کا پہلا مالیاتی میوزیم قائم کیا ، سٹیٹ بینک کیسے کام کرتا تھا کرنسی نوٹوں کی چھپائی کیسے کی جاتی تھی، اور سکے کیسے ڈھالےجاتے تھے؟ پاکستان میں یہ ایک طرح کا راز تھا جس سے یہ میوزیم پردہ اٹھاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment