فیس بک کا آغاز4 فروری سنہ 2004 میں امریکی طالبعلم مارک زکربرگ اور اس کے ساتھیوں نے کیا تھا
شروعات میں اس کا نام "دی فیس بک" تھا جو 2006 میں بدل کر فیس بک رکھا گیا ایک کالج سے شروع ہونے والی سوشل سائٹ پوری دنیا میں لانچ کردی گئی
پاکستان میں فیس بک صرف پڑھے لکھے طبقے تک محدود تھی۔ اس کا استعمال انٹرٹینمنٹ کے علاوہ دوستوں سے گپ شپ کیلیے کیا جانے لگا 2008 میں گروپس اور پیجز وجود میں آئے تو کچھ اخبارات کے ٹھکرائے ہوئے لکھاریوں نے وہاں اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کردی مگر پرابلم تھی کہ ان دنوں 420 الفاظ سے زیادہ لکھنا ممکن نہی تھا
اس لیے بلاگ بنا کر شیئر کردیے جاتے بعد میں فیس بک اور گوگل+ کا اشتراک ہوا تو الفاظ کی تعداد لامحدود کردی گئی
اس کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا میں انقلاب آیا اور ہر شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کا پلیٹ فارم میسر آگیا اور بے دھڑک جاندار اور اخبارات کیلیے ناقابلِ اشاعت تحاریر یہاں لکھی جانے لگیں
یہ وہی وقت تھا جب الیکٹرانک میڈیا کا طوطی بولتا تھا۔ پہلے پہل تو سوشل میڈیا کو ایک شرارتی اور بدتمیز بچے سے تشبیہ دی جانے لگی مگر جلد ہی سب کو احساس ہوگیا کہ سوشل میڈیا کا طوفان سب کو بہا کر لے جائے گا اس لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر باقاعدہ مہم کا آغاز ہوگیا
مگر اسکا الٹ اثر ہوا اور لوگ فیس بک کی جانب متوجہ ہوئے۔ انہی دنوں موبائل ٹیکنالوجی سمارٹ فون میں کنورٹ ہوئی تو فیس بک نے ایپ متعارف کر کے اور بھی مشکلات کھڑی کردیں
اب یہ میڈیا ہر کسی کے ہاتھ میں تھا موبائل کمپنیز کے سستے نیٹ پیکجز نے اور بھی بوسٹ دیا اور فیس بک پاکستان میں سوشل میڈیا کا لیڈر بن کے ابھرا
خطرے کی گھنٹی محسوس ہوتے ہی سوشل میڈیا کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا اور میڈیا گارڈفادرز نے صحافیوں اور لکھنے والوں کے زریعے سوشل میڈیا کا بھی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کچھ حد تک کامیابی مل سکی مکمل کنٹرول حاصل کرنا ناممکن تھا جسکے لیے فیس بک پر شروع دن سے لکھنے والے رائٹر کے اکاونٹس کو ہیک یا ڈی ایکٹو کروا کے انکی فین فالونگ کو ختم کردیا گیا صرف وہی لوگ رہ گئے جو طنز و مزاح، معلومات عامہ یا اردو ادب پہ لکھتے تھے
2010 سے لیکر 12 تک 200کے قریب رائٹر اور بلاگر اچانک سے لکھنا چھوڑ گئے اور انکے پروفائلز فریز پڑے ہیں۔
ان دنوں ٹرینڈ اور ہیش ٹیگ وغیرہ کا زمانہ نہی تھا اس لیے کسی کا کچھ پتا نہیں چلا کہ کون کدھر گیا اور اسکے ساتھ کیا ہوا
بعد میں بھی گرفت مضبوط رکھنے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر چائنہ کے سمارٹ فون اور سستے ترین نیٹ پیکجز فیس بک کی دنیا میں ایسا انقلاب لائے کہ تمام کوششیں ریت کا ڈھیر ثابت ہوئیں اور سازشی عناصر وقتی طور پر خاموش بیٹھ گئے مگر ہزاروں کی تعداد میں صحافیوں اور پیڈ رائٹر کو انجیکٹ کیا جاتا رہا۔
پہلے پہل تو ان اداروں کے پیڈ صحافیوں اور بلاگرز کی جانب سے یہاں لکھنے والوں کو ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں فیس بکی دانشور، نوسکھیے، خودساختہ دانشور، جیسے القابات دیکر اہانت آمیز رویہ رکھا گیا اور خود ہر کوئی مورخ، پیشن گو، تاریخ دان ، تجزیہ کار اور دانشور بن بیٹھا
اپنی قابلیت کا رعب جھاڑنا، مشکل اردو سے سب کو مرعوب کرنا، بےتکی سی بات لکھ کر پوگو چینل کی پبلسٹی کرنا، کسی دوسرے مگرمچھ کی وال پر پنگے لینا ، اس کے اسکرین شاٹس شیئر کرنا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ان سینئرز کے پسندیدہ مشغلے بن گئے اس کے علاوہ اصل موضوعات سے توجہ ہٹانے کیلیے ہزاروں کی تعداد میں فیک زنانہ آئی ڈیز وجود میں آئیں اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوا کہ 2013 کے دوران فیس بک پر مختلف سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ایجنسیوں کے مبینہ تنخواہ دار اہل کاروں کے علاوہ مذہبی جماعتوں اور انتہاپسند عناصر نے فیس بک پر ہلہ بول دیا
ایسے میں تعمیری لکھنے والوں کی آواز کہیں نیچے ہی دب چکی ہے۔ ہر کوئی لائکس کمنٹس کے چکر میں اول فول بکے جارہا ہے ہر کوئی اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کی نمائندگی کررہا ہے کہیں سازشیں بےنقاب ہورہی ہیں تو کہیں تیار
نیوٹرل تو کوئی بھی نہیں ہے
دوسری طرف جو لوگ شروع دن سے سوشل میڈیا پر اپنا کنٹرول جمانا چاہ رہے تھے ان کے لیے لوہا گرم ہے
ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں فیک آئی ڈیز بنا کر ہر کسی کی فرینڈ لسٹ میں گھس چکے ہیں اور ہر دن سینکڑوں کی تعداد میں اصل آئی ڈیز بلاک ہو رہی ہیں۔
روبوٹک آئیڈیز کی مدد سے ڈیٹا اور معلومات چرائی جارہی ہیں اندر ہی اندر ایک ایسی جنگ شروع ہے جس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہورہا
ان روبوٹک آئی ڈیز کی خاص بات یہ کہ ان کو ایک یا دو گروہ کنٹرول کر رہے ہیں
پچھلے کچھ دنوں میں دس بارہ دوست ان کا شکار ہوچکے ہیں میرا دوست حیران ہے کہ ادھر میں نے ایک خاص مائینڈ سیٹ کے خلاف پوسٹ لگائی ادھر میں رپورٹ ہوکر بلاک بھی ہوگیا ۔ اسی طرح بہت سے دوست انباکس میں یہی گتھی سلجھانا چاہتے ہیں کہ ہم تو کسی کو رپورٹ کریں تو ٹس سے مس نہیں ہوتا جبکہ ہم اسی وقت ہوگئے؟
اس کی دو وجوہات ہیں
نمبر ایک تو یہ کہ آپ کو ایک ہی وقت یعنی ایک گھنٹے میں پانچ سو سے زائد لوگ رپورٹ کریں
نمبر دو ۔ آپ کو رپورٹ کرنے والے اگر آپ کی فرینڈ لسٹ میں بھی ہیں تو انکی گواہی معتبر سمجھی جاتی ہے اگر ایسے پندرہ بیس افراد بھی رپورٹ کر دیں تو فیس بک انتظامیہ ایکشن لے لیتی ہے
روبوٹک آئیڈیز کا مقصد یہی ہے کہ سب کی فرینڈ لسٹ میں اتنی جگہ بنا لیں کہ بوقت ضرورت اس کو اڑایا جاسکے
ایسی آئی ڈیز کو پہچاننا ناممکن ہے کیونکہ سب کے ساتھ ہی سینکڑوں کی تعداد میں میچؤل فرینڈز بھی ہوتے ہیں جن پہ اعتبار کر کے اکثر لوگ ایڈ کر لیتے ہیں
اس لیے ایسی ریکویسٹس کو اگنور کریں اور فیس بک کو محبتیں بانٹنے اور لینے کا زریعہ بنائیں حق بات کریں کسی بھی پروپیگنڈے یا ٹرنیڈ کا حصہ نا بنیں
باقی جو لوگ شروع دن سے منہ کی کھاتے آئے ہیں انشاءاللہ آگے بھی ان کو کڑی ٹکر ملے گی
خدا حافظ
No comments:
Post a Comment